شیشلو۔ قلمکار: غنی پہوال
شیشلو (۱)
شیشلو اے شیشلو۔۔۔۔۔!
اپنی بلوری آنکھوں کی بارانی موسموں کو
رولہ (۲) کے اُداس سمندر میں
ڈوبنے مت دینا
کیونکہ تشنگی ایک بے نام و نشان مُقبرہ ہے
شیشلو۔۔۔
تمہاری محبتوں کی سبز وادی بہت زرخیز ہے
اپنی دکھوں کی فصل تم نے
آسمانوں کی بانجھ کھیتیوں میں کیوں لگائی۔۔۔
عقائدکی مسحور کن لوریوں سے
بھوک کی شب گزیدگی
آنکھ بند کر کے سونے والی نہیں
تم اس بے ثمر تعلق کے
دشت ِ ایقان کے اُن زُمزمی قطروں کو
جو اوس کی طرح
تمہاری زندہ خواہشوں کی کفن پر بکھرے ہیں
انہیں اپنی آنکھوں کی لو زدہ کانیگ (۳) میں چھپالینا
شیشلو۔۔۔۔۔
کس قدر برہنہ ہے
غمِ اصیل کی زینت کا حُسن
آو انہیں اپنی مسکراہٹ کا
دوپٹہ سر پر اوڑھا دو
اور اپنی چاہتوں کے ابدی بیج کو
زندگی کی ان خُشک
مگر بار آورہونٹوں میں
وقت کی بے رحم فیصلوں کی طرح بو جانا
شیشلو۔۔۔۔۔
میں نے اپنے
زمردی چٹانوں کے آبگینے خواب،
سوکھے دریاوں کی بہتی آنکھیں
اور لق و دق صحراوں کا پیاسہ دل
تمہاری دونوں ہتھیلوں میں رکھ دیئے ہیں
دیکھ کہیں کسی ستارے کے گہوارے میں سو مت جانا
کیونکہ رات کی وحشی چیخ پھیل چکی ہے ہر سَمت
دیکھ میری ماوں کی بلوچ ساز انجیریں (۴)
جنگلی سوروں کی چراگاہ نہ بن پائیں
دادی ماں کے تمام نواسوں کو
ایک ایک کر کے بازیاب کر لینا
جو دھرتی کی ازلی تِشنگی میں تحلیل ہوچکے ہیں
تُم،زُمردی چٹان، سبز انجیراور
دادی ماں کے نواسوں کے ساتھ
میرے جھلسے ہوئے سرودِ دل کو
ایک ایسی سُر میں متشکل کردو
کہ شبنمی رات شہد کی طرح ٹپکنے لگے
اور میں پھولوں کی خوشبوؤں بھری
ایسی یاد بن جاوں
کہ قیامت تک برستی بادلوں کے
ہوا پیمائی پروں پرمحوِ سفر رہوں
۱۔شیشلو : جب کئی سال بارش نہیں برستی تو گاوں کی تمام بچیاں ایک خاص قسم کی گڑیا بناتی ہیں اور اسے بچوں کی طرح بانہوں میں لے کر گھر گھر جاکر کہتی ہیں شیشلو شالو تھوڑی سی کھجوردے،، شیشلو شالو تھوڑا ساپانی دے،ششیشلوشالو تھوڑی سی روٹی دے، اسی طرح دوسری چیزیں بھی مانگتی ہیں (دراصل بچیاں یہ سب اس پیاسی اور بھوکی گڑیا کیلئے جو استعارہ ہے زندگی کی،مانگتی ہیں ، تمام گھروں کا چکر مکمل ہوتا ہے تو یہ بچیاں گھروں سے تھوڑی دور جاکر گڑیا اور کھانے پینے کی چیزیں درمیان میں رکھ کر خود گول دائرے میں بیٹھ کر یہ چیزیں آپس میں بانٹ کر کھاتی ہیں۔ کہتے ہیں اس سے بارش ضرور برستی ہیں۔ویسے شیشلو کے لغوی معنی خوبصورت کے ہیں جو اس گڑیا کا نام ہے۔
۲۔ رولہہ : سورج ڈوبنے کا منظر اپنی تمام تر کیفیات کے ساتھ۔
۳۔ کانیگ: بارش کا پانی جب دریاوں سے گزر کر سمندر میں گرتا ہے تو کچھ دنوں کے بعد پانی ختم ہوجاتا ہے، تب لوگ دریاؤں کے اندر ایک چھوٹا گڑھاجو تین سے چار فٹ چوڑا اور گہرائی شروع میں زیادہ سے زیاد ہ دو فٹ ہوتا ہے کھودتے ہیں، تب گڑھا پانی سے بھرجاتا ہے اور لوگ اسی پانی کو استعمال کرتے ہیں۔دوسرے معنوں میں جب کسی آنکھ کا ڈیلاکسی سبب نکل جاتا ہے تو اسے بھی کانیگ کہتے ہیں۔
۴۔ انجیر : ایک پودا ہے جو عموما پہاڑوں کی چوٹیوں پر اُگتا ہے۔ بلوچی کلاسیک شاعری میں انجیر فخرو شان اور پاکیزگی کاعلامت ہے۔