للہ اور گراناز.( بلوچی کلاسک ادب سے). صادق مری
للہ اور گراناز
( بلوچی کلاسک ادب سے)
اے شریکِ حیات
اے گراناز !
سینے میں پیوست ہے
تیرا طعنہ
یہ اک زخم ہے
جو کہ رستا ہے اب تک
تھجے کس طرح سے بتاؤں
کہ جھیلے ہیں اس جسم پر تیر کتنے
نشاں تیغ کے ہیں
مجھے تم نے بزدل کہا ہے
جواں سال بھائی گنوائے ہیں تم نے
ترا درد مجھ سے سوا ہے
نہیں باپ کا سر پہ سایہ
گراناز !
تلوار تھامے ہوئے تھا مَیں
جب ہوش کے آخری ایک لمحے میں
یہ جسم ہارا
میں بھاگا نہیں جنگ سے
میری گھوڑی ترے در پہ لائی تھی جب نیم مردہ
تو تم نے مجھے بڑھ کے تھاما نہیں
تجھ کو ارمان تھا
جنگ میں کام آتا
تو تم فخر سے سوگ میرا مناتی
جدا ہوکے تجھ سے
میں زندہ رہا
اور تجھ کو خبر ہو گراناز
بدلہ تو سو سال رہتا ہے زندہ
مجھے موت آتی بھی کیسے
میں درّے میں مولا کے
لے کر ترا انتقام آگیا ہوں
صادق مری
للہ اور گراناز ۔ محبت کرنے والے میاں بیوی ۔ ایک جنگ میں گراناز کے بھائی اور بات مارے گئے اور للہ نیم مردہ زخم کھا کر بچ گیا – گراناز بزدلی کا طعنہ دے کر لا تعلق ہوگئی ۔ للہ نے بعد میں دشمنوں سے انتقام لیا اور بہادر ہونے کا حق ادا کر دیا۔