سیمک و نتھا۔( بلوچی کلاسک سے) صادق مری
سیمک و نتھا
( بلوچی کلاسک سے)
ابھی تک ابر پارے
ایستادہ ہیں ، سرِ ماراں
کلاہ جیسے سجے نتھا کے سر
زلفیں کے بل اتریں
پھواروں میں
صدا میں ہے کڑک بجلی سی
جیسے تیغ چمکی ہے
یہ بوندیں اس کے
تیروں کی طرح
بادل برستے ہیں ، تو اب بھی شانک
میں مرقد شہیدوں کے
مہک اٹھتے ہیں خوشبو سے
تو جاگ اٹھتا ہے نتھا
خاک بر سر
جھاڑتا ہے اپنی زلفیں
پوچھتا ہے
ابر و باراں سے
یہ کیسی یاد کی خوشبو
مہکتی ہے
یہ کس کی آنکھ کے آنسو ہیں جو
مجھ پر برستے ہیں
صدا آتی ہے
ہم بہتے ہوئے ،سیمک کے
آنسو ہیں
ہے جو ویراں نظر ، خاکستر و وارفتہ، تیرے
سوگ میں نتھا
ابھی تک ابر پارے
ایستادہ ہیں ، سرِ ماراں
کلاہ جیسے سجے نتھا کے سر
زلفیں کے بل اتریں
پھواروں میں
گماں ہوتا ہے نتھا لوٹ کر آیانہیں
اک جنگ جاری ہے
ابھی تک سوگ میں سیمک کا نوحہ گونجتا ہے
وقت سنتا ہے
صادق مری
سیمک ۔ ایک بلوچی کلاسک شاعرہ جس نے نتھا ( شوہر ) کے سوگ میں نوحہ کہا ، جس کی مثال نہیں ملتی۔
ماراں ۔ ایک پہاڑ نام
شانک ۔ ایک جگہ کا نام