تاریخ کا اہم پہلو ۔ بلوچوں کا ساہیوال پر 4 سو سالہ دور حکومت.
بلوچوں کا ساہیوال پر 4 سو سالہ دور حکومت.
“قاضی نور محمد کلہوڑہ” کے لکھے “جنگ نامه (1765)” میں “ساہیوال” کو بلوچوں کا شہر لکھا گیا ہے ۔
ساہیوال پر بلوچوں نے لمبے عرصے حاکمیت کی جس کا اغاز 1527 میں ہوا ۔ ان بلوچوں کو “خانان ءِ ساہیوال” کہا جاتا تھا۔
ساہیوال کے بلوچ حاکمین کی تفصیل و فہرست درج ذیل ہے :
»»» ملک بجار خان بلوچ :
یہ پہلے بلوچ تھے جنہوں نے ساہیوال پر حکمرانی قائم کی ، یہ “کیچ مکران” سے ایک خاندانی لڑائی کی وجہ سے کوچ کر کہ دہلی اور پھر ساہیوال پہنچ آۓ ، جدھر انکو مغلوں کی طرف سے “تھل” اور “شاہ پور” پر حکومت سومپی گئی۔ ملک بجار خان بلوچ 1530 میں وفات پا گۓ، جس کے بعد ان کے بیٹے “گل بھلک خان” نے ساہیوال و گردونواح کی حکومت سنبھالی ۔
»»» گل بھلک خان بلوچ :
گل بھلک خان بلوچ نے شاہ پور میں کافی دیہاتوں کی بنیاد رکھی اور “خٹکیاں” قبائل سے ایک خون ریز جنگ لڑ کر ان پر بھی قابو پایا ، یہ جنگ جس مقام پر لڑی گئی اس مقام کو اج بھی “ہڈاں والا” کہا جاتا ہے ، یہ جنگ میں قتل کیے جانے والے ان افراد کی ہڈیوں کی مناسبت سے ، جو جنگ کے کافی عرصے بعد تک بھی “میدان” میں پڑی سفیدی کا کام کرتی رہیں۔ گل بھلک خان بلوچ 1547 میں اپنی وفات سے پہلے پہلے ساہیوال کے ارد گرد بھی حکومت قائم کر چکے تھے۔
»»» ہوت خان بلوچ :
ہوت خان بلوچ “گل بھلک خان بلوچ” کے فرزند تھے مگر ان کی زندگی کے حالات و واقعات کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں۔
»»» مبارک خان بلوچ اور بدھا خان بلوچ :
ہوت خان بلوچ کی طرح ان دونوں کے دور حاکمیت پر بھی معلومات موجود نہیں۔
»»» صاحب خان بلوچ :
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شدید ظالم اور جابر تھے کہ ان کی رعایا نے ہی ان کے خلاف بغاوت کر کہ ان کے بھتیجے “ملک لنگر خان بلوچ” کو اپنا حاکم چن لیا۔
»»» لنگر خان بلوچ :
لنگر خان بلوچ ایک اسان مزاج شخص تھا جس نے اپنی حکومت کو تھوڑا وسیع کیا ۔ لنگر خان نے زراعت کو بھی بہت اہمیت دی۔ لنگر خان کو ڈر تھا کہ اس کی وفات کے بعد اس کے “چار بیٹے” آپس میں لڑیں گے ۔ اسی کے بارے میں سوچتے ہوۓ اس نے ، چاروں کے لیے الگ الگ قلعے بنواۓ ، مگر ہوا وہی کہ 1735 میں اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں میں پھوٹ پڑ گئی اور اس کے سب سے برے بیٹے “لال خان بلوچ” نے اپنے بھائیوں اور بھتیجے کو قتل کر کہ تخت پر قبضہ کر لیا۔
»»»لال خان بلوچ :
لال خان بلوچ “احمد شاہ ابدالی” کا حلیف تھا، جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا تو “لال خان بلوچ” نے اس کا بھرپور ساتھ دیا ۔جب احمد شاہ ابدالی نے “لال خان” کو اہمیت دینا اور نوازنا شروع کر دیا تو اس کے بھائی “مبارک خان” نے حسد میں آ کر “بچھڑیاں والا” کے فتح خان کے ساتھ مل کر اس پر لشکر کشی کی اور اس کو قتل کردیا۔
»»» فتح خان بلوچ :
یہ صرف بارہ سال کا تھا جب اس نے اپنے والد “لال خان” کا تخت سنبھالا ، ایک ذہین لڑکا تھا جس نے جلد ہی اپنے باپ کا بدلا لینے کی کوشش کی اور اپنے باپ کے قاتل مبارک خان کو بہاولپور بھاگنے اور پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ فتح خان زیادہ دیر حکومت نہیں کر سکا ، افغانوں کے خلاف ایک جنگ میں قید کر لیا گیا۔ دیرہ اسماعیل خان لے جا کر افغانوں نے “فتح خان” کو قتل کر دیا۔ فتح خان کے دور میں بلوچ کافی مستحکم ہو گۓ تھے اور جھنگ کے سیالوں سے ایک جنگ بھی لڑے۔
»»» بھندی بلوچ (خاتون حاکم) :
فتح خان کے قتل کے بعد ، ان کی والدہ “بھندی بلوچ” نے حکومت سنبھالی، یہ بہت دلیر اور با صلاحیت تھیں ۔ 1750 میں احمد شاہ کا نمائندہ “راجہ کورا مل” ان سے نذرانہ لینے آیا لیکن انہوں نے جنگ کو چنا اور اپنا لشکر بلوا کر “کورا مل” پر حملہ کر دیا، بری طرح سے شکست کھائی اور اپنے بچوں سمید قید اور پھر قتل کر دی گئیں۔
»»» مبارک خان بلوچ:
مبارک خان یہ دیکھتے ہی کہ بھندی بلوچ ماری گئی ہیں، بہاولپور سے واپس آیا اور بغیر کسی مزحمت کہ ساہیوال پر قابض ہوگیا ، 1770 میں اپنی وفات تک وہ ساہیوال کا “خان” رہا۔
»»» محمد خان بلوچ :
مبارک خان کے بیٹے “محمد خان” کو سکھوں کی طرف سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، جھنڈا سنگھ بھنگی سے جنگ لڑی ، کچھ علاقہ ہار گیا مگر مجموعی طور پر اس کا حملہ پسپا کردیا۔ کچھ ہی عرصے بعد “جھنڈا سنگھ” سے ہارا علاقہ واپس لے لیا۔ سکھوں نے اعزازی دورے کے بہانے کچھ بلوچوں کے ساتھ مل کر “محمد خان” کو قتل کر دیا۔
»»» الله یار خان بلوچ :
الله یار خان بلوچ اپنے والد کے قاتلوں سے بدلہ لینے کے بعد , جہلم سے ایک نہر کاٹنے کے دوران اپنے گھوڑے سے گر کر ہلاک ہوگیا۔
»»» فتح خان بلوچ :
فتح خان بلوچ اپنے بھائی الله یار خان بلوچ کی وفات کے وقت نابالغ تھا۔ کچھ عرصے کے لیے فتح خان بلوچ کی والدہ “اللہ جواہی” نے “دیوان دیا رام” کے ساتھ نائب ریاست کا کردار ادا کیا۔ جب فتح خان بلوچ جوان ہوا تو اس نے تخت سنبھالا اور سکھوں کے خلاف جنگ کی ، سکھوں کو شکست دے کر “نہنگ” اور “شیخ جلال” کے قلعے واپس لیے۔ اس کے بعد فتح خان نے “مٹ سنگھ بھنگی” کے خلاف جنگ کی اور اس سے “ڈیرہ جرہ” کا علاقہ چھین لیا جس کہ بعد وہ اپنی بہادری اور طاقت کے لیے جانا جانے لگ گیا، لوگ اس سے خوف زدہ ہوگۓ۔ اس نے اپنے عروج میں سابقہ تمام “خانان ءِ ساہیوال” سے زیادہ علاقے پر حکومت کی۔ 1804 سے 1810 تک یہ رنجیت سنگھ کے جرنیل “ماہان سندھ” کو نذرانہ پیش کرتا رہا لیکن 1810 میں رنجیت سنگھ نے دھوکے سے حملہ کر کہ فتح خان کو قید کر لیا ، جس کے بعد فتح خان اور اسکی اولاد نے کچھ عرصہ قید و بند کاٹی ۔
1812 میں رنجیت سنگھ نے فتح خان کو جاگیر دے کر آزاد کر دیا ۔ فتح خان 1820 میں بہاولپور کے علاقے “احمد پور” میں وفات پا گیا۔
اس کی وفات کے بعد “رنجیت سنگھ” نے اس کے چودہ سالہ بیٹے “لنگر خان” کو لاہور کی دعوت دی اور “ساہیوال” اور “جھنگ” میں کچھ جاگیر دے دی۔ ملتان میں لنگر خان کو رہائش دی جھدر لنگر خان دس سال “دیوان ساون مل” کی سرپرستی میں رہا ۔ اس کی اولاد اج تک یہ جاگیر رکھتی ہے۔
Copy Post By:- Abdul Arham Baloch
حوالہ ::
The Punjab chiefs historical and biographical notices of the principal families in the territories under the Punjab government By Lepel Henry Griffin (1865)